ہجر یوں سلیقے سے بِتانے والے آخری لوگ ہیں
یہ شکلیں چاند میں بنانے والے آخری لوگ ہیں
نئی نسلوں میں محبت شناسی کا فقدان ہو گا
ہم زمیں پر وفائیں نبھانے والے آخری لوگ ہیں
دیکھنا رت جگوں کا عذاب اترے گا بستروں پر
یہ پُرسکون نیند کے سرہانے والے آخری لوگ ہیں
قیس کی تقلید رہ جائے گی فقط کہانیوں تک
یہ ویرانوں کی طرف جانے والے آخری لوگ ہیں
پھر صحرا کی جبیں سجدۂ عشق کو ترسے گی
ہم دشت میں آذان سنانے والے آخری لوگ ہیں
باقی ہیں اب گنتی کے چند جھریوں زدہ چہرے
اِس زمانے میں اُس زمانے والے آخری لوگ ہیں
اداس مسخروں کو ، زمانہ مدتوں یاد رکھے گا
حیؔدر ہم رو رو کر ہنسانے والے آخری لوگ ہیں
乂ᩏꪹỉ᭢ᨶꫀ